لکھنو: تفسیر کا مطلب ہے قرآن کے اسرار و رموز کو لو گوں کے سامنے واضح کردینا ہے ۔ قرآن کے سب سے پہلے مفسر حضرت محمد مصطفی صلعم ہیں ۔ جنہوں نے قرآن کے تمام اسرار و رموز سے لو گوں کا باخبر کیا ۔ پیغمبر اسلام نے پہلے خامو شی سے اپنی صداقت سے ، حسن اخلا ق سے ، اپنے کر دار سے لو گوں اپنی طرف متوجہ کیا اور قرآن کی تعلیم دی ۔ ظاہر سی بات ہے رسول صلعم کے بعد وہی صحیح قرآن کی تعلیم دے سکتا ہے اسی کو مفسر قرآن اور نا طق قرآن کا حق حاصل ہو گا جو آپ کی آل اور آپ کے نور سے ہو ، آپ کے نور کا دوسرا حصہ ہو گا۔کیونکہ پیغمبر اسلام نے فرمایا حضرت علی علیہ السلام مجھ سے ہیں اور میں حضرت علی علیہ السلام سے ہوں ۔حضرت فاطمہ زہرا مجھ سے ہے اور میں حضرت فاطمہ زہرا سے ہوں ۔حضرت حسن و حسین علیہم السلام مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔ اس بات یہ تصدیق یہ ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے دست رسالت پر قرآن پڑھا تو پیغمبر اسلام نے کہنا یا علیؑ آپ نے قرآن ایسا پڑھا جیسے میں پڑھتا ہواور بعد پیغمبر اسلام حضرت علی علیہ السلام نے نماز پڑھائی تو لوگوں کو کہنا پڑا کہ اے علی علیہ السلام آپ نے قیام ،قرا ¿ت ، رکوع ، سجدہ ، ذکر سجدہ ایسا ہی کیا جیسے رسول اسلام کیا کر تے تھے ۔

آج جا معہ نا ظمیہ میں آیة اللہ حمید الحسن تفسیر قرآن کے عنوان سے پر وگرام کو خطاب کر رہے تھے ۔ انہوں نے طلبہ کی توجہ کو تفسیر قرآن کی طرف مبذول کر اتے ہوئے کہا کہ اگر قرآن کے اردو ترجمہ اور تفسیر 75فیصد اگر کوئی پڑھتا ہے تو وہ اسی جا معہ ناظمیہ کے طلبہ کی ہے ۔ مولانا فرمان علی صاحب اسی ناظمیہ کے طالبعلم تھے اور یہیں سے تعلیم حا صل کی ۔آیة اللہ حمید الحسن نے طلبہ کی قرا ¿ت و تلفظ کی طرف زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر طالب علم کو چاہئے وہ تفسیر قرآن کو غور سے پڑھے ۔اگر آپ پیش نماز ی کر رہے ہیں تو آپ کو فن قرا ¿ت سے بھی آگاہ ہونا چاہئے ۔مخرج الفاظ کس طرح کہاں سے ادا ہو تے ہیں اس پر بھی آپ کو عبور ہو نا چاہئے ۔ الف سے ے تک تمام حروف کے مخار ج اور ان کی ادائیگی کو بیحد غور سے پڑھنا چاہئے ۔