عارف نقوی

برلن: اردو اکیڈیمی دہلی کی طرف سے پرو فیسر شارب ردولوی کو بہادر شاہ ظفر ایوارڈ دئے جانے کی خبر اودھ نامہ اور دیگر اخبارات میں پڑھ کر جرمنی کے ادبی حلقوں میں مسرت کی لہر پھیل گئی ہے۔ میں اپنی ، اپنے خاندان اور اردو انجمن برلن اور چلڈرن چیریٹیبل سوسائٹی برلن کے سبھی اراکین کی طرف سے پروفیسر شارب ردولوی اور ان کے تمام دوستوں کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

پروفیسر شارب ردولوی برلن کے اردو داں حلقوں کے لئے انجان نہیں ہیں۔ ان کی ادبی و سماجی خدمات کی یہاں بہت سراہنا کی جاتی ہے۔وہ موجودہ دور کے بہت اہم ترقی پسند اردو نقاد اور شخصیت ہیں۔ ان کی لا تعداد ادبی اور تنقیدی کتابوں کی برصغیر میں شہرت ہے۔
خاص طورر سے ۱۸۵۷ء اور اس کے بعد کی جنگ آزادی میں اردو شاعروں نے جو کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں ان کو منظرِ عام پر لاکر شارب ردولوی نے صرف اردو ادب کی ہی بہت بڑی خدمت نہیں انجام دی ہے بلکہ ایک بہت بڑا قومی فریضہ انجام دیا اور حب الوطنی کی مثال قائم کی ہے اور وطن اور انسانیت کے لئے اپنی جان کی بازیاں لگاکر شعر اور گیت لکھنے والے سچے قوم پرستوں اور شہیدوں کی مثالیں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔ کاش کہ آج کے دور میں ہم ان سے کچھ سیکھ سکیں۔ پروفیسر شارب ردولی نے اپنی اہلیہ پروفیسر شمیم نکہت کے ساتھ کے تعاون سے شعاع فاطمہ گرلس انٹر کالج لکھنئو قائم کرکے غریب بچیوں کی تعلیم کا جوکارنامہ انجام دیا ہے ، اس پر بھی ہر وہ انسان جو خواتین میں علم کی شعاع اور قومی ترقی کاطلبگار ہے فخر کر سکتا ہے ۔

ہمیں اس بات کی خاص طور سے مسرت ہے کہ یہ اعزاز انہیں دہلی کی اردو اکیڈیمی کی طرف سے دیا گیا ہے۔ اور وہ بھی ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے ہیرو بہادرشاہ ظفر کے نام سے۔ جن کی زندگی کی مثال اور ملک و وطن کے لئے قربانیوں کی قومی یادگار قائم کرناسارے ملک کا فرض ہے۔

کچھ سال قبل لندن میں یورپ کے مختلف ممالک کے کچھ ادیبوں نے مل کر یہ تحریک چلانے کا فیصلہ لیا تھا کہ بہادر شاہ ظفرکے باقیات کو رنگون سے لا کر دہلی میں ان کی قومی یادگار قائم کی جائے۔ہم نے اس مقصد سے ایک کمیٹی بھی قائم کی تھی۔ جس کے صدر برطانیہ کی معروف شخصیت ڈاکٹر ودیاساگر آنند (مرحوم) ، نائب صدر عارف نقوی (برلن ) اور ساحر شیوی (لیوٹن ) اور سکریٹری پروفیسر محمد عارف (لندن ) تھے۔ہم نے کچھ وزراء اور اراکین پارلیمنٹ کو اپیلیں بھی بھیجیں۔ لیکن وقت کے ساتھ بہادر شاہ کی یادگار قائم کرنے کی کوششیں ْٹھنڈی پڑ گئیں۔ ہمیںامید ہے ، کہ اردو زبان و ادب کے پریمی اور سچی قوم پرستی اور انسانیت میں یقین کرنے والے حلقے اب اس بات کے لئے کچھ کریں گے، کہ بہادر شاہ کے باقیات کو ان کے وطن میں لا کر ان کے نام سے قومی یادگار قائم کی جائے۔تاکہ ہم صرف یہ شعر ہی نہ پڑھتے رہیں:

’’کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں‘‘

بلکہ اپنے ضمیر کی آواز پر کچھ قدم بھی اٹھائیں۔