بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت جاری

نئی دہلی :آج جب سپریم کورٹ میں چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی والی پانچ رکنی آئینی بینچ کے سامنے دوسرے روزکی سماعت شروع ہوئی تو دوران سماعت ججوں نے نرموہی اکھاڑہ کے وکیل سوشیل کمارجین سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے جس سے آپ ثابت کرسکیں کہ رام جنم بھومی پر آپ کا قبضہ ہے، اس کے جواب میں مسٹرسوشیل کمار جین نے کہا کہ 1982میں ایک ڈکیتی پڑی تھی جس میں ان کے کاغذات کھوگئے، اس پر ججوں نے ان سے دوسرے دستاویزات پیش کرنے کو کہا، دوران سماعت جسٹس چندرچوڑنے نرموہی اکھاڑہ کے وکیل سے کہا کہ آپ مالکانہ حق کے بغیر پوجاارچناکرسکتے ہیں لیکن پوجاکرنا اور مالکانہ حق جتانا دوالگ الگ باتیں ہیں، اس پر وکیل نے کہا کہ نرموہی اکھاڑہ کی طرف سے سوٹ فائل کرنے کا مقصدیہ تھا کہ ہم اندرکے احاطہ پر اپنا حق جتاسکیں، سماعت کے دوران چیف جسٹس رنجن گگوئی نے بھی کئی طرح کے سوالات پوچھے اور معاملہ کی باریکی سے جانکاری مانگی مثال کے طورپر رام جنم بھومی میں داخلہ کہاں سے ہوتاہے اور وہاں سیتارسوئی کہا ں ہے وغیرہ وغیرہ بہرحال نرموہی اکھاڑہ کے وکیل عدالت کے سامنے اپنے دعویٰ کے حق میں کوئی دستاویز پیش نہیں کرسکے اور یہ کہہ کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی کہ تمام دستاویزالہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں درج ہیں اس کے بعدکورٹ نے کہا کہ آپ اپنی بحث فی الحال روک دیں اور دستاویزات سے متعلق اورتیاری کرکے آئیں تب تک ہم سوٹ نمبر 5کے وکیل پراسنن کو سنتے ہیں

بعدازاں عدالت نے رام للا کے وکیل کو بحث کا موقع دیا، رام للا کی طرف سے اپنی بحث کا آغاز کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ پراسنن نے کہا کہ اس معاملہ سے ملک کے ہندووں کے جذبات جڑے ہوئے ہیں لوگ رام جنم بھومی کو بھگوان رام کی جائے پیدائش مانتے ہیں اور پران وتاریخی دستاویزات میں اس بات کے ثبوت بھی ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ برطانوی راج میں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس جگہ کا بٹوارہ کیا تھا اور مسجد کی جگہ رام جنم استھان تسلیم کیا تھا انہوں نے والمیکی رامائن کا حوالہ بھی پیش کیا اور کہا کہ انگریزوں کے زمانہ میں تب کی عدالت نے ایک فیصلہ میں وہاں بابرکی تعمیر کردہ مسجد اور جنم استھان مندرکا ذکر کیا تھا اس پر جسٹس بوبڑے نے پوچھا کہ کیا کسی مذہبی جگہ کو لیکر اس طرح کاکوئی سوال یا تنازعہ دنیا کی کسی اورعدالت میں بھی آیا؟ اس کے جواب میں مسٹرپراسنن نے کہاکہ وہ اس معاملہ کو چیک کرائیں گے، مسٹرپراسنن نے بحث کے دوران یہ بھی کہا کہ دھرم کا مطلب ریلجن(Religion)نہیں ہوتا، گیتامیں دھرت راشٹرنے دھرم چھیترکروچھیترکہا ہے وہاں دھرم چھیترکا مطلب ریلجن(Religion) سے قطعی نہیں ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ رامائن میں تین جگہ یہ لکھا ہے کہ بھگوان رام ایودھیامیں پیداہوئے تھے، اس پر عدالت نے کہا کہ کیا جیسس کرائسٹ بیت الحم میں پیداہوئے تھے اور کیا ایسا سوال کبھی عدالت کے سامنے آیا؟ اس پر مسٹرپراسنن نے کہا کہ وہ اسے چیک کرائیں گے، واضح ہوکہ نرموہی اکھاڑہ کے وکیل کی بحث کے دوران جمعیۃعلماء ہند کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹرراجیودھون نے متعددمرتبہ عدالت سے شکایت کی کہ ایڈوکیٹ جین ایسے دستاویز ات عدالت کے سامنے پڑھ رہے ہیں جو عدالت کے ریکارڈ کا حصہ نہیں ہیں اور اس کی کاپی ہمیں فراہم نہیں کی گئی ہے،واضح رہے کہ گذشتہ دنوں چیف جسٹس آف انڈیا نے حکم دیا تھا کہ عدالت سب سے پہلے رام للا (سوٹ نمبر 5) اور نرموہی اکھاڑہ (سوٹ نمبر 3) کاموقف سنے گی جس پر جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ اس معاملہ میں جمعیۃ علماء ہند کی اپیل پہلے داخل کی گئی تھی جس پر سماعت پہلے ہونی چاہئے لیکن عدالت نے ان کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے حتمی بحث شروع کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔آج فریق مخالف کی بحث نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی کل تک ملتوی کردی۔ بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 پر بحث کے دوران جمعیۃ علماء کی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ محمد عبداللہ،ایڈوکیٹ و دیگر موجود تھے۔