اے آزاد قاسمی

ذو الحجہ یا ذوالحج قمری کیلنڈرکا آخری مہینہ ہے،اسے حج والا مہینہ کے نام سے بھی جاناجا تاہے، اللہ رب العزت نے اس ماہ کو ابتدائے آفرینش سے ہی قابل احترام قراردیاہے، قرآن مقدس میں جن چار حرمت والے مہینوں کا ذکر ہے اس میں سے ایک محترم مہینہ ”ذوالحجہ“کا بھی ہے،اللہ تعالیٰ نے اس ماہ محترم میں اپنے محبوب ﷺ کی امت پر متعدد مخصوص اور اہم عبادتیں عائد کی ہیں، اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن ”حج“ کا فریضہ بھی اسی ماہ میں اداکی جاتی ہے، اور پوری دنیا کے مسلمان اس عظیم قربانی کی یادمیں اللہ کے حضوراپنی قربانی پیش کرتے ہیں جس کو اللہ عزوجل کے جلیل القدرپیغمبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیھماالسلام نے اللہ کے حضورپیش کی تھی، ان برگزیدہ شخصیات کا عمل اللہ رب العزت کو اس قدرپسند آیا کہ رہتی دنیا تک کے لئے ان کے اس عمل میں سے بعض کو امت محمدیہ ﷺ پر فرض، واجب اور سنت مؤکدہ قراردیکر زندہ وجادیدبنادیا،پوری دنیاسے امت مسلمہ ایام حج میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی بے مثال جذبہ فدائیت اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کے جذبہ جاں نثاری کی پیروی میں حکم الہی کو بجالانے کے لئے دیوانہ وار شہر امن ”مکۃ المکرمۃ“کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں، جہاں نہ کوئی رنگ ونسل کی تمیز ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی لسانی تفریق، ہر ایک کی زبان پر اپنے رب کے شوق دید میں بس ایک ہی کلمہ ہوتاہے کہ اے اللہ میں حاضرہوں،میری اس حاضری کو قبول فرما، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا کو ئی شریک نہیں، تمام تعریفیں آپ ہی کو سزاوار ہیں۔

ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن کی اہمیت:
ماہ ذوالحجہ کی ابتدائی دس دنوں کی فضیلت قرآن مجید میں (والفجرولیال عشر)(ایام معلومات)(شاہد ومشہود)کے ساتھ آیا ہے۔ مفسرین کی اکثریت کے مطابق ان دس راتوں سے مرادذو الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں اور فجر سے بعض اہل علم نے یوم عرفہ کی صبح مرادلی ہے، اسی طرح ”ایام معلومات“ سے بھی ذی الحجہ کی ابتدائی دس دن مراد ہے، اللہ عزوجل کا کسی شئی کی قسم کھانا اس دن اوراس گھڑی کے محترم اور قابل عظمت ہونے کے لئے کافی ہے۔اہل علم ان دس دنوں اورراتوں کی اہمیت وفضیلت کو رمضان المبارک کی راتوں کے بعدسب سے زیادہ فضیلت والی قراردیتے ہیں بایں معنی کہ ان دس دنوں میں ایک ساتھ بہت سی ایسی عبادتیں انجام دی جاتی ہیں جو اللہ کو بہت زیادہ محبوب ہیں جیسے نماز، روزہ، قربانی اور حج کا رکن اعظم ”وقوف عرفہ“قیام مزدلہ ومنیٰ، سعئی صفاء ومروہ اور دیگر بہت سے امورحج،ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ”ذوالحجہ کی 10 تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں،قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں، سینگوں اور کھڑوں کے ساتھ آئے گا (اور یہ چیزیں اجروثواب کا ذریعہ بنیں گی) اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبولیت حاصل کرلیتا ہے، لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو“ (ترمذی) ایک دوسری حدیث میں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”افضل ترین دن (ذوالحجہ کے دس دن) ہیں“۔ صحابہ کرام نے عرض کیا”کیا اللہ کے راستے میں جہادسے بھی (ان دنوں کے عمل سے بڑھ کر نہیں) فرمایا”نہیں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ سوائے اس شخص کے جواپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹا (یعنی شہید ہوگیا)“۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”جس شخص نے اللہ کے گھرکا حج کیا اورلہوولعب اوردنیاوی ظاہری وباطنی فسق وفجورسے بچا رہا تو اس حالت میں لوٹے گا جیسے آج ہی اپنے ماں کے بطن سے پید اہوا ہو“۔

شان کبریائی کامظہر ”یوم عرفہ“

یوم عرفہ انتہائی عظمت و فضیلت کا حامل ہے، گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے آزادی کا دن ہے، عرفہ ہی کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے تمام بندوں سے میثاق خاص لیا تھا، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی ذریت سے عرفہ میں میثاق لیا، آدم علیہ السلام کی پشت سے ساری ذریت نکال کر ذروں کی مانند اپنے سامنے پھیلادی اور ان سے آمنے سامنے بات کرتے ہوئے فرمایا کہ(کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟سب نے ایک ساتھ جواب دیا کیوں نہیں!(الاعراف)اگر عشرہ ذی الحجہ میں سوائے ”یومِ عرفہ“ کے اور کوئی قابل ذکر یا اہم عمل نہ بھی ہوتے تو یہی اس کی فضیلت کے لیے کافی تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ(اللہ تعالیٰ یوم عرفہ سے زیادہ کسی اور دن میں اپنے بندوں کو آگ سے آزادی نہیں دیتا بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کے قریب ہوجاتاہے اورپھرفرشتوں کے سامنے فخرسے فرماتاہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں، ان لوگوں کو میری رحمت اورمغفرت کے اور کیا چاہئے)۔ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”شیطان یومِ عرفہ کے علاوہ کسی اور دن میں اپنے آپ کو اتنا چھوٹا، حقیر، ذلیل،کمتراور غضبناک محسوس نہیں کرتا جتنا اس دن کرتا ہے۔ یہ محض اس لیے ہے کہ اس دن میں وہ اللہ کی رحمت کابے پناہ نزول اوراللہ عزوجل کا اپنے بندوں کے گناہوں سے صرفِ نظر کا مشاہدہ کرتا ہے‘۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”عرفہ کے دن کے روزہ کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے“ (صحیح مسلم)۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔قابل ذکر ہے عشرہ ذوالحجہ میں روزہ 9ذو الحجہ تک ہی رکھے جاسکتے ہیں کیونکہ دس ذو الحجہ کو”یوم النحر“ کی وجہ سے روزہ جائز نہیں اسی طرح ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔یہاں ایک اہم بات کی طرف نشاندہی ضروری ہے کہ یوم عرفہ کا شمار ہر ملک کے اپنے مطالع سے شمار کیا جائے گا نہ کہ مکۃ المکرمہ کے عرفہ کے دن سے یعنی کہ یوم عرفہ کا روزہ رکھنے والے کے ملک اور شہرمیں 9 ذی الحجہ جس دن ہوگا وہ اسی دن روزہ رکھیں ان کا عرفہ اسی دن ہوگا،میدان عرفات میں حاجیوں کے قیام کی تاریخ دیگر ملکوں اورشہر والوں کے لئے حجت اور دلیل نہیں ہے۔

عشرہ ذالحجہ میں حجامت وغیرہ سے بچنامستحب ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لواور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہوتو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
اس حدیث سے اس بات کی تاکید معلوم ہوتی ہے کہ قربانی کا ارادہ رکھنے والے شخص کو ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعداپنے بالوں کی حجامت اور ناخن تراشنے سے بچنا چاہئے، ایک دوسری روایت میں ان الفاظ کی زیادتی ہے ”حتی یضحی“یہاں تک کہ وہ قربانی کرلے یعنی قربانی کرنے کے بعد حجامت وغیرہ کروائے اس سے پہلے نہیں، یہ حکم مستحب ہے، سنن ابی داود کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص نے قربانی کے عدم استطاعت کا اظہار کیا تو آپﷺ نے اس سے فرمایا ”تم 10 ذوالحجہ کو اپنے بال بنوالینا، ناخن تراش لینا،مونچھیں کتروالینا اور زیر ناف کے بال صاف کرلینا یہی عنداللہ تمہاری قربانی ہے“اس حدیث کی بنیادپر بہت سے اہل علم کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص جس پر قربانی واجب نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ ان ایام میں اپنے بالوں کی حجامت اور ناخن وغیرہ تراشنے سے بچے اور عیدالاضحی کی نماز کے بعد اپنی حجامت اور ناخن وغیرہ تراشے تاکہ ان ایام کی فضیلت اور قربانی کے ثواب کو پاسکے، ہمیں اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ عشرہ ذو الحجہ میں زیادہ سے زیادہ تکبیر وتہلیل کااہتمام کرنا چاہئے اور ان ایام کے ہرہر لمحہ کااحترام کرناچائے تاکہ ان معتبرک دنوں کاکوئی پل ہماری کاہلی اور سستی کی نذرنہ ہو جائے، خاص کر ایام تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے تکبیر تشریق پڑھنا واجب ہے۔ یوں توذو الحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل احترام ہے لیکن اس کے ابتدائی دس دن تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں،۔ غرضیکہ رمضان المبارک کے بعد ان ایام میں اللہ تعالی کو راضی کرنے، اخروی اور دنیا وی کامیابی حاصل کرنے کے بہترین مواقع ہیں جو اللہ نے محض اپنے فضل وکرم سے امت محمدیہ ﷺ کو عطاء فرمایا ہے، اللہ عزوجل کی شان کبریائی روز اجل سے ہی اپنے بندوں کے لئے اورخاص کر اپنے محبوب ﷺ کی امت کی تسکین اورہمیشہ ہمیش رہنے والی اخروی زندگی کی کامیابی کے لئے اس مادیت پرست دنیامیں بے شمار مواقع اور اسباب مہیافرمائے ہیں،اگر انسان کا عمل محبت، جذبہ خلوص اور وفاداری پر مبنی ہوتومشیت ایزدی انسانوں کی قدم قدم پر رہنمائی کرتی ہے،ہمیں ان بابرکت ایام کو غینمت جانتے ہوئے اس کے ہر ہر لمحہ کی قدرکرنی چاہئے،اور زیادہ سے زیادہ حصول ثواب میں سعی کرنی چاہئے۔اللہم آمین۔