دارالعلوم دیوبند میں یوم آزادی کی تقریب سے صدرجمعیۃعلماء کا تاریخی خطاب

نئی دہلی: یوم آزادی ملک بھرمیں روایتی جوش وخروش سے منایا گیا، لیکن اس موقع پر عالم اسلام کی عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم دیوبند میں جو تقریب منعقدہوئی وہ اس لحاظ سے غیر معمولی اور یادگارکہی جائے گی کہ اس میں جہاں اساتذہ اورطلبہ نے کثیر تعدادمیں شرکت کی وہی سہارنپورکے ڈی ایم آلوک کمارپانڈے،ایس ایس پی دنیش کمار اور مقامی ممبرآف پارلیمنٹ حاجی فضل الرحمن، اور ادارہے کہ نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی نے اس تقریب کو مزید رونق بخشی، دارالعلوم کے استاذحدیث اور جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے اس تقریب سے ایک تاریخی خطاب کیا،جس کی گونج دوردورتک محسوس کی جاتی رہے گی، خطاب کے دوران انہوں نے یہ باوارکرایا کہ کسی بھی قوم کیلئے آزادی ایک عظیم نعمت ہوتی ہے وہی انہوں نے جدوجہد آزادی میں علماء کے کلیدی کردار اور ان کی قربانیوں کی تفصیل پیش کی اور کہا کہ آزادی کی تحریک 1857میں نہیں بلکہ اس سے بہت پہلے اس وقت شروع ہوئی جب 1799میں سرنگا پٹم میں ٹیپو سلطان کو شہید کیا گیا، ٹیپوسلطان نے اس تحریک کو جہاں چھوڑاتھا اس کوآگے بڑھانے اور عوام میں جذبہ حریت جگانے کا کام اس وقت کے علماء نے کیا، انہوں نے کہا کہ یہ آزادی وطن کی تقریب ہے اور اس طرح کی تقریبات میں ہم اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو یادکرتے ہیں جس کے نتیجہ میں ملک آزادہوا اور غلامی کی لعنت سے ہم کوآزادی ملی، مولانامدنی نے کہا کہ ہمارے ہاتھوں اور پیروں میں غلامی کی زنجیریں پڑی ہوئی تھی جس سے ہم آج ہی کے دن آزادہوئے،درحقیقت یہ ہمارے بزرگوں کے قربانیوں کا ثمرہ ہیں اس لئے ہمارافرض ہوتاہے کہ ہم ان کی قربانیوں کا تذکرہ کریں، تقریب میں مہمان خصوصی کے طورپر شریک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، ایس ایس پی، اور ڈی ایم مہمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آزادی کی بنیادی تحریک شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ کی ذات سے جڑی ہوئی ہے، سلطان ٹیپوکوجب شہید کیا گیا تو انگریز جنرل نے ان کے سینہ پر کھڑے ہوکر کہا تھا کہ اب ہندوستان ہماراہے، بعدازاں ملک کے مہاراجاوں اور نوابوں کوزیر کرنے کہ بعد 1803میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی میں اعلان کیا کہ خلق خداکی، ملک بادشاہ سلامت کا مگر آج سے حکم ہماراچلے گا تو اس وقت کے سب سے بڑے عالم دین شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ نے یہ اعلان کیا تھا کہ آج ہماراملک غلام ہوگیا اور اس غلامی سے نجات کے لئے جہادکرنا ہر مسلمان کا فرض ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ اس وقت کسی راجہ،یا نواب میں یہ حوصلہ نہیں تھا کہ وہ انگریزوں کے خلاف آواز اٹھاتا مگر ایک بوریا نشیں نے یہ حوصلہ کیا جس کی سزا یہ انہیں بھگتنی پڑی کہ ان کی جائداد،مدرسہ اور مسجد کو قرق کرلیا گیا شہرسے انہیں نکال دیا گیا اور ایک ایسا زہر دیدیا گیا جس سے ان کے جسم پر سفید داغ پڑگئے مگر اس انسان کے اندرآزادی کی جو آگ تھی وہ روشن رہی انہوں سید احمد شہید رائے بریلوی ؒ اور شاہ اسماعیل شہید ؒ جو ان کے نواسے تھے آزادی وطن کیلئے تیا رکیا 1824میں شاہ صاحب کا انتقال ہوگیا اور ان کی تحریک کو انہی دونوں لائق شاگردوں نے نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ پورے ملک کے دورہ کئے اور ہندووں اور مسلمانوں سے یہ عہد لیا کہ وہ آزادی ملک کے لئے قربان ہوجائیں

ان دونوں شخصیتوں کی قربانیوں اور شہادت کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مدنی نے شیخ الہند مولانا محمودحسن ؒ کی آزادی وطن کیلئے ان کی خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا اور اس بات کی بڑی خوبصورتی سے وضاحت کی کہ دارالعلوم دیوبند کا قیام کیوں ہوا اور کن حالات میں عمل میں آیا؟ انہو ں نے علماء صادق پورکا بھی حوالہ دیا اورکہا کہ علماء کی آوازپر 1845تک ہندواور مسلمان متحد ہوکر وطن کی آزادی کے لئے لڑتے اور جان کی قربانیاں پیش کرتے رہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ 1857میں وطن کی آزادی کیلئے پہلی نہیں دوسری جنگ لڑی گئی انہوں نے آگے کہا کہ اس دورمیں انگریزوں نے ان مسلم بچوں کو جن کے باپ آزادی وطن کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے اپنے رنگ میں ڈھال نے کے لئے ان کو مفت تعلیم، رہائش اور کھانے کا لالچ دیا، اس وقت مولاناقاسم نانوتوی ؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ جیسے علماء نے دارالعلوم دیوبند کی بنیادڈالی، اور اعلان کیا کہ ان بچوں کی کفالت ہم کریں گے اور تعلیم سے آراستہ کرکے انہیں انگریزوں سے لڑنے کے لئے تیارکریں گے، مولانامدنی نے کہا کہ یہ وہ بوریا نشیں لوگ ہیں جنہوں نے پوری قوم کو بیدارکیا، دارالعلوم دیوبند کے قیام کوڈیڑھ سوبرس پورے ہوچکے ہیں مگر اس کے مصارف میں ہم کسی حکومت سے مددنہیں لیتے آج اس کے مصارف کا خرچ تقریبا 33کروڑ ہے اور یہ تمام پیسہ قوم کے لوگ دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ شیخ الہند مولانا محمودحسن ؒ دارالعلوم کے پہلے طالب علم تھے جنہوں نے دیارغیر میں ایک جلاوطن حکومت قائم کی اور اس جرم میں دوسرے لوگوں کے ساتھ انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں اٹھائی انہوں نے اس بات پر سخت تعجب کا اظہار کیا کہ آزادی وطن کیلئے ہمارے علماء نے جو قربانیاں دیں اب اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جب کہ سچائی یہ ہے کہ ہمارے انہی بزرگوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں ملک آزادہوا، ہمارے علماء نے جمعیۃعلماء ہند کے بینرتلے دوسرے برادران وطن کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملاکر جنگ آزادی میں حصہ لیا، اور جب آزادی ملی تو ہمارے بزرگوں نے اعلان کردیا کہ اب جمعیۃعلماء ہند خالص مذہبی جماعت ہوگی اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، جبکہ ہمیں اقتدارکا کوئی لالچ نہیں ہے، ملک کو غلامی سے آزادکرانا ہمارا مذہبی فرض تھا جسے ہم نے پوراکردیا آزادی کے بعد نفرت کی سیاست کے نتیجہ میں فسادات کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ جس طرح ہندواورمسلمانوں نے مل کر آزادی کی جنگ لڑی ہم سمجھتے ہیں کہ نفرت کے خلاف بھی ہمیں اسی طرح مل کر جنگ لڑنی ہوگی، کیونکہ ملک نفرت سے نہیں پیارومحبت سے ہی چل سکتاہے، انہوں نے زوردیکر کہا کہ اگر نفرت کو ختم نہیں کیا گیا تو یہ ملک باقی نہیں رہے گا انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارایہ نظریہ ہے کہ او رہم اس نظریہ پر پہاڑکی طرح ڈٹے ہوے ہیں اور وہ یہ کہ ملک میں جب تک بھائی چارہ،اتحاد، اور پیارومحبت زندہ ہے یہ ترقی کرکے آگے بڑھتارہے گا لیکن اگر نفرت کو شکست نہیں دی گئی تو یہ ملک تباہ بربادہوجائے گا۔

پروگرام میں تشریف لائے ایس ایس پی دنیش کمار نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستان کی آزادی میں دارالعلوم دیوبند کا بہت بڑا کردار ہے، دارالعلوم ہمیشہ سے ملک کی ترقی کے لئے کوشاں رہا ہے، ایس ایس پی نے طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ میں سے کسی کو آئی ایس، آئی پی ایس، آئی آر ایس آفیسر بھی بنا چاہئے، انہوں نے مولانا مدنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں دارالعلوم میں اب اس طرح کی کلاس بھی شروع کریں، انہوں نے اپنی تمنا کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم کی نظر اب ملک چلانے پر اور ملک کی باگ ڈور سھنبال نے پر بھی ہونی چاہئے- سہارنپور ایم پی حاجی فضل الرحمن نے کہا کہ ملک کی آزادی میں ہر طبقہ نے حصہ لیا اور سبھی نے اپنی جان کی قربانیاں پیش کیں،، مولانا مدنی نے بتایا کہ دارالعلوم دیوبند اپنے طلبہ کو یہی نظریہ دیتا ہے کہ جہاں رہو پیار و محبت کا کا پیغام دے کر رہو، -آخر میں مولانا مدنی نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا- اس دوران ادارہ کے اساتذکرام، کارکنان اورطلبہ کے علاوہ شہرکے ہزاروں لوگ موجودرہے۔