منظور پروانہؔ

بچپن میں جب بزرگوں کو یہ کہتے سنتے تھے کہ ساری قدریں خاک میں ملی جا رہی ہیں تو سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کون سی قدریں ہیں جن کے مٹنے کا غم ان بزرگوں کو ستا رہا ہے۔ مگر اب جب عمر نصف صدی کو پار کر چکی ہے تو یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کیونکہ آج کے ماحول سے جب پچاس سال پہلے کے ماحول کا تقابل کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ واقعی بزرگ سچ کہتے ہوں گے۔ کیونکہ ان پچاس برسوں میںسماج اور سماج کی قدورں میں جس قدر تبدیلی آئی ہے وہ حیرت زدہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ بدل رہا ہے زمانہ بدل رہا ہوں میں کی دھن میں اشرف المخلوق کہلانے والا آج کا انسان اپنی حرکتوں سے ڈارون کے نظریہ کی تائید کرتے ہوئے خود کو بندر(جانور) کا وارث ثابت کرنے پر تلا ہے۔ ہر چیز میں مغرب کی نقالی کی جا رہی ہے۔ تہذیب و تمدن ، کھان پان، رشتے ناتے، ادب اور کلچر سب کی قدریں بدل گئیں۔ آج کے بچے اپنے بڑوں سے اس طرح اور اس لہجے میں بات کرتے ہیں کہ عمر کا تفاوت محسوس ہی نہیں ہوتا۔ جیسے وہ کوئی بے معنی چیز ہو۔ باپ اور بیٹے کی آپسی گفتگو ہو یا چال ڈھال ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں دوست ہوں۔ باپ اور بیٹے کا جو فرق ہونا چاہئے وہ دکھائی نہیں دیتا۔ آج کی نوجوان نسل آپس میں اتنہائی محبت کا اس طرح اظہار کرتی ہے کہ جب یہ آپس میں ملتے ہیں تو بجائے کلمہ خیر ادا کرنے کے مادر پدر سے بات چیت کا آغاز کرتے ہیں۔ ہر جگہ ہر وقت برق رفتاری اور اچھل کود کا دور دورہ ہے۔ اس تیز رفتارمادی دنیا میں ٹی وی کلچر جس طرح گھروں میں داخل ہوا ہے وہ تو سب پر ظاہر ہے مگر اب جس طرح موبائل اور موٹر سائیکل کلچر پنپ رہا ہے اس کے دور رس نتائج کیا ہوں گے اور اس کی انتہا کیا ہوگی خدا ہی جانے۔

ان حالات کے شکار لوگ اکثر سوال کرتے ہیں۔ ’’آخر ایسا کیوں؟ جب کہ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ ہم میں مذہب بیزاری کی وبا عام ہو چکی ہے۔ اب مذہب محض ایک ٹائٹل بن کر رہ گیا ہے۔ بہت زیادہ مذہبی ہوئے تو بس مسجد، مندر، گرودوارہ اور چرچ کے اندر تک یا تیوہاروں پر خوشی منانے تک ورنہ ہر معاملے میں دنیا دار۔ اس معاملے میں عام طور پر سب کا حال یکساں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ترقی یافتہ ہونے کی سند ہی مذہب بیزاری ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر طرف بکھراؤ ہے، تناؤ ہے۔ کہیں سکون نہیں۔ سماج کا بکھراؤ، رشتوں کا بکھراؤ، خاندانوں کا بکھراؤ، اس بکھراؤ کے درمیان باپ بیٹے میں ٹکراؤ، ماں بیٹی میں ٹکراؤ، ساس بہو میں ٹکراؤ، سسر داماد میں ٹکراؤ، بھائی بھائی میں ٹکراؤ عام بات ہو گئی ہے۔ دوسری طرف ہر آدمی دوسرے کو کمتر اور خود کو برتر ثابت کرنے پر تلا ہے۔ ایسے حالات میں مشترکہ خاندان کی روایت کس طرح باقی رکھی جائے یہ ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ کیونکہ آج کی نسل صرف اپنے حقوق کی بات کرتی ہے فرائض اسے یاد نہیں رہتے۔ اسی لئے مشترکہ خاندان کی روایت بھی ٹوٹ رہی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ بالکل ختم ہو رہی ہے۔ مجھے بھی اس بات کا احساس تھا مگر کوئی تجربہ نہ تھا۔ لیکن ایک واقعہ نے مجھے ہلاکر رکھ دیا اور بہت دور تک سوچنے پر مجبور کر دیا۔

حسب معمول اس دن بھی میں دفتر میں بیٹھا ایک فائل کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ اچانک کسی کی آواز سنائی دی۔ ’’صدیقی صاحب آداب عرض ہے۔‘‘میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو میرے سامنے راجن بابو کھڑے تھے۔ میں نے فوراً کرسی سے اٹھ کر ہاتھ ملاتے ہوئے ان سے بیٹھنے کو کہا۔

میرے خیریت دریافت کرنے پر وہ بولے۔’’خیریت کیسی؟ تنہا زندگی کے دن کاٹ رہا ہوں۔ تم سے ضرورت آن پڑی تو آیا ہوں۔‘‘

’’ارے شکنتلا بھابی اور امت کہاں ہیں؟ آپ تنہا کیوں رہ رہے ہیں؟ میرے لائق جو کام ہو بتائیے۔‘‘میں نے جواب میں انکساری کے ساتھ پوچھا۔

میرے سوال کے جواب میں راجن بابو نے جو کہانی سنائی وہ کہانی یہ تھی۔

’’میں نوکری سے ہمیشہ غیر مطمئن رہا۔ نوکری تو میں مجبوری میں کرتا تھا۔ نوکری نہ کرتا تو گھر کا خرچ کس طرح چلتا۔ مگر میں نے نوکری کے ساتھ اپنی ادبی زندگی کو برقرار رکھا۔ جس کی یافت سے بیوی اور بچوں کی خواہشیں بھی پوری ہوتیں اور میں بیوی کے طنز کے تیروں سے بچا رہتا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اپنی ادبی زندگی سے دلی سکون بھی ملتا تھا۔ اوپر والا بھی مجھ پر بہت مہربان تھا۔ اس نے میری نیت کے مطابق دونوں لڑکیوں کے لئے ایسے رشتوں کا انتظام کرا دیا جہاں جہیز کا مسئلہ ہی نہ تھا ورنہ میرے لئے تو یہ کام جوئے شیر لانے سے کم نہ ہوتا۔ دونوں بیٹیوں کی شادی کے بعد کافی راحت محسوس ہوئی۔ ایک دن دفتر میں صاحب کی نا جائز بات پر تکرار اس قدر بڑھ گئی کہ میں نے نوکری چھوڑ دی۔ نوکری چھوڑنے پر شکنتلا نے مجھ پر خوب طنز کے تیر چلائے۔ میں خاموش رہا اور اپنی ادبی زندگی میں زیادہ مصروف رہنے لگا۔ کچھ دن تک حالات معمول کے مطابق رہے مگر پھر امت کی پڑھائی کے خرچ اور فرمائشوں نے مسائل پیدا کر دئے۔ نتیجہ میں شکنتلا کے طنز کے تیروں کی بارش تیز ہو گئی۔ حالانکہ میں نے کبھی شکنتلا کی باتوں پر دھیان نہ دیا۔ نوکری چھوڑنے کے بعد میں نے ایک اخبار میں ملازمت کر لی تھی اور اپنی ادبی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ اس سے اتنی آمدنی ہوتی کہ گھر کا خرچ پورا ہو جاتا۔ مگر امت کی بے راہ روی پر جب میں اسے ٹوکتا یا سمجھانے کی کوشش کرتا تو شکنتلا لڑکے کی طرفداری کرتی اور مجھ پر تہمتیں اور الزام لگاتی۔ میں نے کئی بار سمجھایا مگر شکنتلا نے تو شاید قسم کھا رکھی تھی کہ ہر بات پر مجھے ہی نشانہ بنائے گی ہر بات میں مجھے ہی قصور وار ٹھہرائے گی۔ امت کچھ زیادہ ذہین نہ تھا۔ کسی طرح انٹر کا امتحان پاس کر اس نے محکمۂ آبپاسی میں کلر ک کی نوکری حاصل کر لی تھی۔ بیٹے کو نوکری کیا ملی شکنتلا نے زمین پر قدم رکھنا ہی چھوڑ دیا۔ اور ایسا وہ کیوں نہ کرتی؟ وہ کماؤ پوت کی ماں بن گئی تھی۔ جلد ہی شکنتلا نے کماؤ پوت کی شادی بھی کر دی۔ میں خوش تھا کہ اب بہو گھر میں آگئی ہے کم سے کم اس کے سامنے میری بے عزتی نہ ہوگی۔ مگر شکنتلا نے مجھے نہ بخشا بلکہ بہو کے سامنے بھی مجھے ذلیل کرنے سے نہ چوکتی ۔ ایک دن تنگ آکر میں نے شکنتلا سے کہا۔ مجھے سب کچھ گوارا ہے مگر مجھ سے اب یہ بے عزتی برداشت نہیں ہوتی۔ میری شکایت کے جواب میں شکنتلا نے تڑاخ سے جواب دیا۔ کون کہتا ہے برداشت کرو۔ جہاں جی چاہے چلے جاؤ۔ تمہارے نہ رہنے سے ہمارا کیا بگڑ ے گا۔ شکنتلا کے جواب سے مجھے بے حد تکلیف ہوئی۔ اور اس کے بعد سے میں نے الگ رہنا شروع کر دیا۔ مگر اپنے فرض کو نہ بھولا۔ میں گھر کے خرچ کی رقم برابر دیتا رہا۔ میرے چلے آنے کے بعد شکنتلا کی زبان کی اینٹھن کا شکار بہو کو بننا پڑا۔ اسی درمیان پوتے کا جنم ہوا مگر شکنتلا کا رویہ نہ بدلا۔ بہو جب تنگ آگئی تو ایک دن اس نے امت سے کہا۔ آپ کی ماتا جی نے تو میرا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اب میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اگر آپ مجھے اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں تو الگ مکان کا انتظام کر لیجئے ورنہ میں مائکہ میں رہ لوں گی۔ اب میں اور برداشت نہیں کر سکتی۔ امت بھی اپنی ماتا جی کی عادت سے واقف تھا اس نے دوڑ دھوپ کر سرکاری کوارٹر الاٹ کر الیا اور اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ الگ رہنے لگا۔ دو مہینے سے شکنتلا اکیلے رہ رہی ہے۔ میں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں کہ تم اپنی بھابی سے ملو اور پتا لگاؤ کہ ان کا ارادہ کیا ہے اگر ان کو میری ضرورت ہے اور وہ میرے ساتھ رہنے کو تیار ہیں تو میں اسے معاف کرنے کو تیار ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے فرض میں کوتاہی کروں۔ وہ میری پتنی ہے اس کی خبر گیری میرا فرض ہے۔ اس کی نا سمجھی کا مقابلہ نا سمجھی سے کیوں کروں۔؟‘‘

راجن بابو کی بات سن کر میں حیرت میں پڑ گیا۔ کتنا بڑا دل ہے ان کا۔ یہ کہانی صرف ایک راجن کی ہی نہیں بلکہ یہ کہانی ہر گھر کی ہے مگر کتنے لوگ ایسے کشادہ دل ہیں جیسے راجن بابو۔ اگر ایسا حوصلہ ہو اور لوگ برائی کو برائی سے ختم کرنے بجائے برائی کو اچھائی سے مٹانے کی کوشش کریں اور صبر و شکر کا رویہ اپنا کر اپنے فرض کو پورا کریں تو یقینا یہ دنیا پھر سے امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے۔ اور سکون کی فضا قائم ہو جائے۔ کاش یہ بات ہماری نئی نسل کی سمجھ میں آجائے۔

چکن شاپی، نظیر آباد، لکھنؤ

Email : manzoorparwana7673@gmail.com