پروفیسر محمدیونس نگرامی اپنی تخلیقات کے ذریعے آج بھی زندہ ہیں: ڈاکٹر عزیز قریشی

لکھنؤ : پروفیسر محمدیونس نگرامی کی زندگی قوم کی ترقی و فلاح، انسان دوستی اور دینی و سماجی کے کاموں کو وقف تھی۔ان کا تعلق ہندوستان کے ایک ایسے بڑے دینی وعلمی خانوادے سے تھا جس کی دینی، علمی اورادبی خدمات کا اعتراف نہ صرف سرزمین ہندوستان بلکہ عرب ممالک کے علما، فضلا و دانشوران نے کیا ہے۔ہندوستان سے بطور علمی سفیرعرب ممالک میں ان کی نمایاں خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اصلاح معاشرہ اور پیام انسانیت کی ایسی عمدہ مثال اور قابل قدرشخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ان خیالات کا اظہارحضرت مولانا ڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی ندوی، مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلما نے آل انڈیا مسلم انٹلکچول سوسائٹی لکھنؤ کی جانب سے منعقد ہونے والے ایک روزہ سیمینار بعنوان’پروفیسر محمدیونس نگرامی :شخصیت اور فن ‘ کے دوران کیا۔ممتاز پی جی کالج کے مولانا علی میاں سیمینار ہال میںمنعقد اس سیمینارکے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے میں انہوں نے مزید کہا کہ دارالعلوم ندوۃالعلما اور حضرت مولانا علی میاں ؒ سے پروفیسر محمدیونس نگرامی کو بے پناہ محبت اور عقیدت تھی جس کے اثرات ان کی علمی صلاحیتوں پر بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔سیمینارکے آغاز میں آ ل انڈیا مسلم انٹلکچول سوسائٹی لکھنؤ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر عمار انیس نگرامی نے تمام مہمانوں کا استقبال کیا اور احمد عمار نگرامی نے سوسائٹی کی جانب سے استقبالیہ کلمات پیش کئے۔جلسے کی نظامت مولانا ذکی نور عظیم ندوی نے کی اور تفصیل کے ساتھ سیمینار کے ابتدا میں ہی پروفیسرمحمد یونس نگرامی کے بارے میں تعارفی کلمات پیش کئے۔اس سے قبل پروگرام کا آغاز مولانا محمد ادریس کے تلاوت کلام پاک سے ہوا۔

اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ کے تعاون سے منعقد ہونے والے اس سیمینارمیں بطورمہمان خصوصی سابق گورنر اتر پردیش، ڈاکٹر عزیز قریشی نے معروف و مشہور مفکرقوم و ملت، بے باک صحافی اوردانشور اورشعبۂ عربی، لکھنؤ یونیورسٹی کے استادپروفیسر محمدیونس نگرامی کی ملی و سماجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ قوم اور ملک کے لئے کچھ کرگذرنے کے جذبے نے انہیں ایک بڑی مشیت کا مالک بنایا۔ان کے ذریعے ملک بھر میں قائم کردہ مختلف دینی مدارس اور مکاتب ان کی محرک شخصیت کی آئینہ دار ہیں۔پروفیسر نگرامی اپنی تخلیقات کے ذریعے آج بھی زندہ ہیں۔

بطورمہمان اعزازی، اتر پردیش کے سابق کار گزار وزیر اعلیٰ محترم جناب ڈاکٹر عمار رضوی نے شرکت کرتے ہوئے پر وفیسر محمدیونس نگرامی کی شخصیت اور ان کے فن کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔انہوں نے پروفیسر محمدیونس نگرامی کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کتاب’’ ہندوستا ن میں عربی علوم و فنون کے ممتاز علما اوران کی خدمات‘‘ ان کی اہم ترین تصانیف میں سے ایک ہے۔ نگرام جیسے معروف علمی دیار سے تعلق رکھتے ہوئے انہوں نے یقینی طور پر لکھنوی تہذیب و ثقافت کی بھر پور پاسداری کی ہے۔عربی، ارود،ہندی انگریزی سمیت دیگر کئی زبانوں پر یکساں دسترس ان کی کئی خوبیوں میں سے ایک تھی جس کا اعتراف ہرعلمی و ادبی طبقے نے کیا ہے۔پروفیسر نگرامی ہمیشہ ہی یاد کئے جائیں جو بحیثیت انسان منفرد تھے۔ سینے میں دھڑکتا ہوا دل تھا ۔ وہ اپنی علمی نصیرت سے بہت بلند تھے۔

مولانا رحیم الدین انصاری ،ناظم دارالعلوم حیدرآباد نے کہا کہ پروفیسرمحمد یونس نگرامی بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے ۔ وہ بہ یک وقت کئی سارے کام ایک ساتھ نہایت ہی خوش سلیقگی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔اس سیمینار میں خصوصی مدعوعین کی حیثیت سے مولانا عمیر صدیق الکوٹی، دارالمصنفین، اعظم گڑھ نے ان کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر نگرامی کی کتاب ’خیالات‘ ایک ایسی مقبول ترین تصنیف ہے جس میں آٹھ بزرگوں سے ملاقات کا ذکر بڑے ہی معنی خیز اور دانشورانہ انداز میں پیش کیاگیا ہے ۔ مولانا زاہد رضا رضوی ، سابق چیر مین مدرسہ بورڈ، اتراکھنڈنے کہا کہ پروفیسر نگرامی ذات نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔ان کی علمیت کا ثبوت اسی بات میں ہے کہ آج تقریباً بیس برس کے بعد بھی انہیں اسی احترام کے ساتھ یاد کیا جا رہا ہے۔مولانا محمد شاہد مظاہری، جنرل سکریٹری مظاہرالعلوم ، سہارنپور نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر محمد یونس نگرامی ندوی مرحوم کی شخصیت ایسی تھی جس نے گلشن دین و ادب کے بہت سارے پھولوں کا عطر کشید کرلیا تھا۔ان کی ذات میں مدرسہ بھی تھا اور خانقاہ بھی تھی۔علم و ادب کا سکون بھی تھا اور تحریک و اجماعیت کی محفل گری بھی، فکر کی تابانی بھی اور حسن اخلاق کی دلبری بھی۔مولانا سیداطہرحسین دہلوی، صدر انجمن منہاج رسول نے پروگرام کنوینر ڈاکٹر عمار نگرامی کو اس سیمینارکے انعقاد کے لئے مبارک باد پیش کی اور کہاکہ پروفیسرمحمد یونس نگرامی شخصیت کبھی بھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔ مولانا کاکا انیس عمری، سکریٹری جامعہ دارالسلام ، عمرآباد تمل ناڈونے بھی پروفیسر محمد یونس نگرامی کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر محمد یونس نگرامی کی بہت ساری خوبیاں وہی ہیں جو علامہ اقبال ایک مرد مومن کے اندر دیکھنا چاہتے تھے۔ایڈوکیٹ اطہر نبی نے کہا کہ پروفیسر نگرامی جب اتر پردیش اردو اکادمی میں چیرمین تھے تو میں وائس چیر مین تھا ۔ہمارے ان سے کافی گہرے تعلقات تھے۔بنیادی طور پر ان کا تعلق عربی زبان و ادب سے تھا لیکن اردو کے لئے بھی انہوں نے نمایاں خدمات انجام دیں۔پدم شری پروفیسر آصفہ زمانی ، چیر پرسن، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤنے بھی پروفیسر محمدیونس نگرامی کی شخصیت اور ان کی علمی و ادبی خدمات پر تفصیلی طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ بحیثیت چیرمین یو پی اردو اکادمی کے انہیں ہم آج بھی یاد کرتے رہتے ہیں۔اردو اکادمی کا تین بار چیر میں بننا اپنے آپ میں ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ اعزاز پروفیسر محمدیونس نگرامی کو حاصل رہا۔عربی زبان و ادب کی بیش بہا خدمات کے لئے انہیںصدر جمہوریہ اعزاز سے سرفراز کیا جانا تمام علمی و ادبی حلقوں کے لئے فخر کی بات ہے۔ پروفیسر سید وسیم اختر ، چانسلر، انٹیگرل یونیورسٹی، لکھنؤ نے بھی پر وفیسر محمدیونس نگرامی کی عظیم المرتبت شخصیت پر مختلف زاوئیے سے روشنی ڈالی ۔پروفیسر عقیل احمد وائس چانسلر، انٹیگرل یونیورسٹی، لکھنؤ نے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کیا اور کہاکہ اکثر ہم لوگ بیٹھ کر ہر موضوع پر گفتگو کرتے رہتے تھے۔ڈاکٹر انیس انصاری نے کہا کہ پروفیسر نگرامی ایک اعلیٰ پائے کی علمی شخصیت تھے۔پروفیسر شارب ردولوی نے کہا کہ ہمارے درمیان ان کی یادیں ہمیشہ موجود رہیں گی۔مولانا کفیل اشرف نے بھی پروفیسر محمدیونس نگرامی کی دینی ، ملی، سماجی اور فلاحی خدمات کے ساتھ ساتھ ان کی انسانیت پرست شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔مولانا عمرین رحمانی ، سکریٹری ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ،مولانا مصطفیٰ رفاہی،صدر آل انڈیا ملی کونسل نے خصوصی طور پر شرکت کی اور دعا بھی کرائی۔اس سیمینار میں جو معزز شخصیات شامل نہیں ہو سکیں انہونے اپنے تحریرکردہ پیغامات ارسال کئے۔جن میں شیخ محمدعبداللہ ضیا،مدینہ المنورہ،حضرت مولانا اصغرعلی امام سلفی، پروفیسر اضترالواسع، وائس چانسلرمولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور، پروفیسر حسیب اختر پرووی سی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، کاکا سعید عمریی ، نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈوغیر ہ جیسی اہم شخصیات ہیں۔

خصوصی مدعوعین کے طور پر مولانا فرمان نیپالی،پروفیسر رمیش دیکشت، پدم شری ڈاکٹر منصور حسن، پروفیسر صابرہ حبیب ،پروفیسر عارف ایوبی،پروفیسر عباس رضا نیر،چودھری شرف الدین ،سید آصف رضوی،سدرت انصاری، وسیم حیدر،انتخاب جیلانی ،محمد احمد ادیب، داکٹر سلطان شاکر ہاشمی،پردیب کپور، ڈاکٹر رخسانہ نکہت لاری ،مسعود جیلانی، سہیل کاکوروی ، حسن کاظمی، داکٹر عبدالقدوس ہاشمی،ڈاکٹرآچاریہ کرشن موہن جی مہاراج،ڈاکٹر احتشام احمد خان، پرویز ملک زادہ، امیر حیدر ، ڈاکٹرمسیح الدین خان ،فہیم صدیقی ، حماد نگرامی ، ڈاکٹر یاسر، سجاد نگرامی ،ضیااللہ صدیقی ،ڈاکٹر منصور حسن خان، حسن متین ، ناہید لاری خان،ڈاکٹر سہیل فاروقی سمیت شہر کے بہت سارے ادبا شعرا اور دانشوران کے ساتھ معززین شہر نے نہ صرف شرکت کی بلکہ پروفیسر محمدیونس نگرامی کوان کے شایان شان یاد کیا اور خراج عقیدت پیش کی۔جلسے کو کامیاب بنانے میں ڈاکٹر عمارنگرامی، سجاد نگرامی ،احمد نگرامی، مولانا ذکی نور، ڈاکٹر مسیح الدین کے علاوہ انتخاب جیلانی کا اہم کردار رہا ۔