عادل فراز

گذشتہ دنوں مجھے دہلی کا سفر درپیش ہوا۔اُسی دن لکھنؤ کے لئے واپسی طے تھی ۔ضروری امور سے فراغت کے بعد ریلوسے اسٹیشن پہونچا تو معلوم ہواٹرین کے پلیٹ فارم پر آنے میں کافی وقت ہے ۔وقت گذاری کے لئے ایک بُک اسٹال کا رخ کیا کہ شاید کوئی اچھی کتاب ہاتھ آجائے ۔سفر میں فرصت کے لمحوں کو بامقصد بنانے کے لئےمیرے نزدیک کتاب سے بہتر کوئی متبادل نہیں ہے ۔بک اسٹال پر متعدد کتابیں ،رسائل اور اخبارات موجود تھے ۔کچھ کتابوں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا مگر کوئی ایسی کتاب نظر نہیں آئی جس کا موضوع فوراََذہن کو اپنی طرف متوجہ کرلے ۔تبھی ایک کتاب پر نظر پڑی جس کے سرورق پر مہاتما گاندھی کے ساتھ ناتھورام گوڈسے کی تصویرنظر آرہی تھی ۔کتاب کا نام تھا ’’ میں نے گاندھی کا وَدھ کیوں کیا۔‘‘ کتاب کے مصنف تھے گوپال گوڈسے ۔میں نے کتاب کے کچھ صفحات کو وہیں کھڑے کھڑے پڑھا اور واپس اسٹال پر رکھدیا ۔میں نے اسٹال کے مالک سے سوال کیا ’’بھیا کیا ایسی کتابوں کےبیچنے پر ریلوے انتظامیہ یاحکومت کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے‘‘۔ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’ بھیا کیاان کتابوں کو ہم چھاپتے ہیں ؟۔جب ہندوستان میں ایسی کتابیں چھپ رہی ہیں تو ہم بیچ رہے ہیں۔اور پھر ہمارا تودھندہ کتابیں بیچنا ہے ۔اس میں کیا چھپاہے اس سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں ‘‘۔مجھےاس کے جواب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر ایک سوال اسی وقت میرے ذہن میں کلبلانے لگا ۔آخر جب ہمارے دیش میں مہاتما گاندھی کے قاتل کےنظریات کو فروغ دےرہی کتابیں کھلے عام بک سکتی ہیں تو کیا موجودہ نظام کے خلاف آواز اٹھانے والے افراد کی آزادیٔ اظہار پر قدغن کیوں؟‘‘۔کیا کشمیر کی موجودہ صورتحال پرحکومت سے سوال کرنااورہندوستان میں پیش آنے والے ہجومی تشدد کے واقعات پر وزیراعظم کوخط لکھ کراپنی تشویش کا اظہارکرنا،ناتھو رام گوڈسےکے نظریات کو فروغ دینے سے بھی بڑا جرم ہے ؟۔اس سوال کی کوکھ سےکئی اور سوال جنم لیں گے جن کا جواب موجودہ سیاسی نظام کی کوکھ سے باہر آچکاہے ،بس ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
گاندھی کے ملک میں اگر گوڈسے کی حمایت میں کھلے عام بیانات دیےجارہے ہوں توپھر گاندھی جی کےملک میں دیگرافراد کو اظہارکی کتنی آزادی ہونی چاہئے؟۔مگر یہ آزادی سلب ہوتی جارہی ہے کیونکہ گاندھی کےقاتل ملک پراپنا تسلط جماچکے ہیں ۔گاندھی جی کےنظریات کو بالائے طاق رکھ کے انہی کے نام پران کےدشمنوں اور قاتلوں کے نظریات کو فروغ دیا جارہاہے ۔افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ یہ سب کچھ’راشٹرواد ‘‘ کے نام پر ہورہاہے اور ’اندھے بھکت‘یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ انہیں گاندھی کے دیش میں گاندھی کے خلاف ہی لاکرکھڑاکردیا گیاہے ۔زیادہ ترنئی نسل کومہاتما گاندھی کے افکارونظریات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ انہیں گاندھی جی کی زندگی سے بے خبر رکھا جارہاہے ۔نصاب میں تبدیلی کی جارہی ہے اور زعفرانی افکارونظریات کو تاریخ کے نام پر نصاب میں شامل کرنے کی مہم چھڑی ہوئی ہے ۔ان سازشوں سے جوپردہ اٹھانے کی کوشش کرتاہے ’گوری لنکیش‘ کی طرح اس کابہیمانہ قتل کردیا جاتاہے یا پھرپورے میڈیا ہائوس کوہی خرید لیا جاتاہے ۔اگر کچھ زندہ دل افراداس صورتحال کے خلاف آواز احتجاج بلند کرتےہیں تو ان کی آواز کو دبانے کے لئے طاقت کا بیجا استعمال کیا جاتاہے ۔یعنی گاندھی جی کے دیش میں ان کے قاتل کے افکارونظریات کی تشہیرو ترویج پر پابندی نہیں ہے مگر گاندھی جی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھانےوالوں کو بالکل اظہار کی آزادی نہیں ہے۔

اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہی بھلائی ہے کہ اب ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی کو پوری طرح ختم کردیاگیاہے ۔چونکہ ہم جیسے چند افراد نے ابھی تک یہ بارور نہیں کیاہے لہذا موجودہ صورتحال کے خلاف لکھنے کی جرأت کررہے ہیں ۔وہ حکومت جو آمریت اور یک طرفہ فیصلوں کے دم پر ہو اس کے لئے اظہار رائے کی آزادی سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، اس لئے موجودہ حکومت نے اظہار کے تمام ذریعوں اور وسائل پر یا تو پوری طرح قدغن لگادیاہے یا انہیں خرید لیاہے ۔برقی میڈیا اس کی واضح دلیل ہے جہاں پروپیگنڈہ نیوز کی بھرمار ہے اور پیڈ پروگرام نشر کئے جارہے ہیں۔ان چینلوں پر ہمیں خبروں کی جگہ ایک ایسی صورتحال سے روبرو کرایا جارہاہے جس کا خارج میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔مگر چونکہ ان پیڈچینلوں نے ایسا بیانیہ تیار کیاہے کہ ہم سفید جھوٹ کو بھی سچ ماننے کے لئے مجبور ہیں کیونکہ ہمارے پاس حقیقت تک پہونچنے کے صحیح وسائل موجود نہیں ہیں یا پھر ہم ان وسائل کو آزمانے کے عادی نہیں ہیں۔دونوں اعتبار سے موجودہ صورتحال اپنے خطرناک ترین دور میں داخل ہوچکی ہے ۔

ہندوستان میں آئے دن ہورہے ماب لنچنگ کے واقعات پر جن سماجی شخصیات نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر موجودہ صورتحال پر تشویش کااظہار کیا تھا ان کی آواز دبانے کی بھی کوشش کی گئی ۔ان شخصیات پر ایف آئی آر دائر کی گئی تاکہ آئندہ کوئی وزیر اعظم کو خط لکھنے کی جرأت نہ کرسکے ۔ایف آئی آر درج کرانے والے شخص کا دعویٰ تھاکہ ان کے خط لکھنے سے بین الاقوامی سطح پر وزیر اعظم کی شبیہ داغدار ہوئی ہے ۔مگر اس نے یہ واضح نہیں کیاکہ ہندوستان میں اقلیتوں پر ہورہے پر تشد د واقعات اور ان پر وزیر اعظم کی خاموشی سے کیا عالمی پیمانے پر ملک کی سیکولر شبیہ کو نقصان نہیں پہونچاہے؟اس کی وضاحت اس لئے بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ وزیر اعظم کو خط لکھنے والی شخصیات پر ایف آئی آر کرانے والے شخص کا تعلق تلاش کرنے کے بعد کسی نا کسی ایسی تنظیم سے ضرور نکلے گا جو پرتشدد واقعات میں شامل رہتی ہیں ۔اس کی زندہ مثال نوین دلال ہےجس نے جے این یو طالب علم عمر خالد پر۱۳ اگست ۲۰۱۸ کو جان لیوا حملہ کیا تھا مگر شیوسینا نے اسے الیکشن میں بہادر گڑھ سے ٹکٹ دیکر یہ ثابت کردیاہے کہ ایسے شدت پسند عناصر کو انکی سرپرستی حاصل ہے ۔

مہاتما گاندھی بین الاقوامی ہندی یونیورسٹی، وردھا مہاراشٹر کے ایس سی اور اوبی سی کیٹگری کے کچھ طالب علموں نے بھی ہجومی تشدد پر وزیر اعظم کو خط لکھ کر تشویش کا اظہار کیا تھا ۔یہ طلباء کشمیر کی تازہ صورتحال پر مذاکرہ رکھنا چاہتے تھے لیکن انہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی ۔سزا کے طورپران تمام طالب علموں کو یونیورسٹی نے معطل کردیا تھا ۔حالانکہ اب انکی معطلی کافیصلہ واپس لے لیا گیا ہے مگر کیا ملک کی موجودہ صورتحال پر وزیر اعظم کو خط لکھنا اتنا بڑا جرم ہے کہ سزا کے طوپر طلباء کے مستقبل کو دائوں پر لگادیا جائے؟۔ کیا آزاد اور سیکولر ہندوستان میں کشمیر کی موجودہ صورتحال پر مذاکرہ رکھنا اور کشمیریوں کے مسائل پر تبادلۂ خیال کرنا بھی جرم ہے ؟ ہندوستان میں یہ صورتحال کبھی نہیں رہی ۔سیاسی آمریت کا شکار تو کانگریس بھی تھی مگر اس نے کبھی خود پر تنقید کرنے والوں کے خلاف اتنا سخت مؤقف اختیار نہیں کیا کہ اظہار کی آزادی ہی سلب کرلی جائے ۔

اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ نوجوان نسل کو ہندوستان کی سیکولر روح سے روشناس کرایا جائے ۔انہیں مہاتما گاندھی کےافکارونظریات سے پوری طرح باخبر کرنے کی مہم چلائی جائے کیونکہ مہاتما گاندھی کی حیات کو سمجھے بغیر ہمارا نوجوان گوڈسے اور اس کےحامیوں کے خلاف کھڑاہونے کی جرأ ت نہیں کرے گا ۔حالات کی فکرکرنا جواں مردوں اور آزادمنش افراد کا شیوہ کبھی نہیں رہا ۔حالات کو بدلنے کے لئے حالات سے لڑنا بیحد ضروری ہے ۔ہمیں امید ہے کہ بہت جلد مزاحمت کی یہ بکھری ہوئی آوازیں ایک منظم شکل اختیار کریں گی اور حالات میں برقی تبدیلیاں رونماہونگی ۔انہی بکھری ہوئی آوازوں کے درمیان سے کوئی پراعتماد قائد بن ابھر کرہمارے سامنےآئے گا۔کیونکہ موجودہ مسلم قیادت کاچہرہ مسخ ہوچکاہےاورانہوںنے اپنے ضمیروں کو علی الاعلان نیلام کردیاہے ۔اس لئے ہمیں ان سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے ۔