عادل فراز

بالآخر مودی حکومت کی ہزار ہا کوششوں کے بعدشہریت ترمیمی بل کو کابینہ کی منظوری مل گئی ۔اب یہ بل لوک سبھا میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا جہاں بہت آسانی کے ساتھ یہ بل پاس ہوجائے گا ۔ظاہر ہے لوک سبھا میں بی جے پی اکثریت میں ہے لہذا اس بل کی عدم منظوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر راجیہ سبھا میں اپوزیشن مضبوط ہے اس لئے بی جے پی کے لئے راجیہ سبھا میں مشکلیں پیش آئیں گی ۔اس بل کے مطابق افغانستان ،پاکستان اوربنگلہ دیش سےآئے ہوئے سکھ ،جین،بدھشٹ،پارسی اور ہندومذہب کے پناہ گزینوں کے لئے شہریت حاصل کرنے کے طریقےکو آسان بنایاگیاہے اور مسلمانوں کے علاوہ جو دیگر مذاہب کے افراد غیر قانونی طریقے سے ہندوستان میں پناہ گزین ہیں انہیں شہریت دینے کی پہل کی گئی ہے ۔بل کے مطابق اگر ہندو،سکھ ،جین ،پارسی اور بدھشٹ ایک سے ۶ سال میں پاکستان ،بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہجرت کرکے ہندوستان میں پناہ گزین ہوئے ہیں تو انہیں شہریت دی جائے گی لیکن اگر مہاجرین مسلمان ہیں تو نہیں شہریت سے محروم رکھا جائے گا ۔یہ بل ان لوگوں کے لئے راحت رساں ہے جو ہندوستان میں بغیر پاسپورٹ ، ویز ا اور قانونی دستاویزوں کے بغیر غیر قانونی طورپر داخل ہوگئے ہیں ۔اس بل کی مخالفت شروع ہوگئی ہے مگر مخالفت کی آواز یں بہت کمزور ہیں کیونکہ اپوزیشن مردہ ہے اور اس میں روح پھونکنے کی جتنی بھی کوشش کی جاتی ہے وہ مزید بے جان ہوتاجاتاہے ۔

چونکہ ہندوستان ابھی ایک سیکولر ملک ہےاس لئے یہ بل آئین مخالف ہے مگر جن کا آئین ہند میں یقین ہی نہیں ہے انہیں اس کی پروا کیوں ہوگی ۔آرایس ایس اور بی جے پی کے ایجنڈے کے مطابق ابھی ہندوستان میں ’’ ہندتوئو‘ ‘ کا نفاذ نہیں ہواہے ،لہذا فقط مسلمان مہاجرین کو شہریت سے محروم رکھنے کی بات کرنا آئین کے خلاف ہے ۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس بل کو آئین مخالف بتانے والا اپوزیشن اور سیاسی و سماجی رہنما بیان کی حدتک اس کی مخالفت کررہے ہیں ۔چونکہ انہیں برسراقتدار جماعت کی مخالفت کا بہانہ چاہئے لہذا شہریت ترمیمی بل کے بہانے بی جے پی کی مخالفت کی جارہی ہے ۔اپوزیشن عملی اقدامات کرنے سے ہمیشہ پیچھے رہتاہے کیونکہ کہیں نا کہیں اس کے اراکین بھی بی جے پی اور آرایس ایس کی ذہن سازی کاشکار ہیں ۔اس لئے یہ مخالفت برائے نام ہے جس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آئے گا ۔آسام اور دیگر ریاستیں جہاں مہاجرین کی تعداد زیادہ ہے اس بل کی کھل کر مخالفت کررہی ہیں کیونکہ مہاجرین کی کثرت سے وجود میں آرہی پریشانیوں نے انہیں فکر مند کر رکھاہے۔ان کے مطابق تمام مہاجرین خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں انہیں شہریت دینا ریاستوں کے مفاد میں نہیں ہے ۔ان کی شہریت کی بنیاد پر جو مسائل ان ریاستوں میں پیدا ہونگے،موجودہ بل میں ان کی ان دیکھی کی گئی ہے۔

وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنے ہندو ووٹ بینک کو خوش کرنے کے لئے شہریت ترمیمی بل میں مسلمانوں کو جگہ نہیں دی ۔این آرسی کے نفاذ میں ناکامی کے بعد شہریت ترمیمی بل دراصل دائو ں پر لگی اپنی ساکھ کو بچانے جیسا عمل ہے ۔این آرسی میں فی الحال مذہبی تفریق کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ جن ریاستوں میں این آرسی کو نافذ کیا گیاہے ان ریاستوں میں این آرسی کی تیار شدہ فہرست میں مسلمانوں سے دوگنی چوگنی تعداد ہندوئوں کی ہے ۔این آرسی کے خلاف ہندو متحد ہورہے تھے یہی وجہ ہے کہ امیت شاہ نے فی الحال این آرسی کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیاہے اور کہاہے کہ این آرسی ۲۰۲۴ ءتک مکمل طورپر نافذ ہوگی ،لیکن شہریت ترمیمی بل پیش کرکے انہوں نے ناراض ہندوئوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ اس بل میں فقط مسلمانوں کو حق شہریت سے محروم رکھا گیاہے اور ہندوئوں کے ساتھ دیگر مذاہب کے افراد کو راحت دی گئی ہے ۔قابل غور بات یہ ہے کہ شہریت ترمیمی بل کی مخالفت سب سے زیاہ آسام میں ہورہی ہے کیونکہ اس قانون کے تحت آسام میں غیر قانونی طورپر پناہ گزین تمام ہندوئوں کوبا آسانی شہریت مل جائے گی ۔آسام سرکار اس بل کے خلاف عدالت میں جانےکا اعلان کرچکی ہے کیونکہ پناہ گزینوں کو شہریت کے بعد جو مسائل ریاست کو درپیش ہونگے آسام سرکار اس کے عواقب کو سوچ کر پریشان ہے ۔

بعض سیاسی مبصرین اور دانشور طبقے کا یہ خیال ہے کہ یہ بل مسلم مخالف نہیں ہے کیونکہ ہندوئوں کے پاس شہریت حاصل کرنے کے لئے کوئی دوسرامتبادل ملک موجود نہیںہے لہذا انہیں شہریت دینا سرکار کا قابل تحسین قدم ہے ۔مسلمانوں کے پاس ہندوستان کے پڑوس میں کئی ایسے متبادل ملک موجود ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ،اس لئے انہیں ان ملکوں کی طرف ہجرت کرنا چاہئے اور مسلمان ملکوں کو بھی ان مسلم مہاجرین کو شہریت دینے میں سبقت کرنی چاہئے ۔یہ سوال ظاہری طورپر اہمیت کاحامل ہےاور عوام و خواص اس موضوع پر بحث و مباحثے میں مبتلا ہیں ۔ہندوستان کے پڑوس میں کئی مسلمان ملک ہیں جو خود کو اسلامی جمہوریہ بھی کہتے ہیں ،کیا وہ ان مسلمان مہاجرین کو اپنے یہاں پناہ نہیں دے سکتے ؟۔ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان جو اس بل کی مخالفت میں ہیں وہ بھی ان مسلمان ممالک سے یہ مطالبہ نہیں کرتے ہیں کہ وہ مسلم مہاجرین کی بازآبادکاری کے لئے کوئی مناسب اقدام کیوں نہیں کرتے؟ ۔وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی ان مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دینے کے حق میں نہیں ہے ۔وہ اپنی آبادی اور اس کے مسائل کو لیکر فکر مند ہیں لہذا ان کے پاس ان مہاجرین کے لئے غوروفکر کرنے کی فرصت کہاں ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوئوںکے پاس کوئی دوسرا متبادل ملک موجود نہیں ہے جہاں وہ شہریت حاصل کرسکیں اس لئے ہندوستان نے انہیں اپنانے کی پہل کی ہے ۔مگر بودھشٹوں کے پاس کئی متبادل موجود ہیں ۔برما میانمار جہاں مسلمانوں پر بدھشٹوں نے اس قدر تشدد کیا کہ انہیں اپنا ملک چھوڑ کر بنگلہ دیش،ہندوستان اور دیگر ملکوں کی طرف ہجرت کرنا پڑی ،ہندوستان میں موجود بدھشٹوں کے پاس برما میانمار ایک بہترین متبادل موجود ہے ۔لیکن کیا برما میانمار کی سرکار ان کے لئے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرے گی ؟۔ یہاں ہندوستان سرکار سے بھی سوال کیا جاسکتاہے کہ اگر ہندوئوں کے پاس متبادل ملک موجود نہیں ہے لیکن بدھشٹوں کے پاس تو کئی متبادل موجود ہیں تو پھرانہیں ہندوستان میں شہریت کا حق کیوں دیا گیاہے ؟ برما میانمار کے علاوہ چین ،سری لنکااور بھوٹان ایسے پڑوسی ممالک ہیں جہاں بدھشٹوںکا غلبہ ہے اور اقتدار پر بھی انہی کا قبضہ ہے ۔ان کے علاوہ کئی ایسے اہم ممالک ہیں جہاں پچاس فیصد سے زیادہ تعداد بدھشٹوں کی ہے جیسے منگولیا،تھائی لینڈ اورلاوس وغیرہ ۔ان کے علاوہ جاپان جیسے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں بدھشٹوں کی اکثریت ہے ۔کمبوڈیا اور تھائی لینڈ میں تو ۹۰ فیصد سے زیادہ بدھشٹ موجود ہیں،جبکہ ہندوستان میں 0.8% بدھشٹ ہیں مگر ہندوستانی سرکار نے بدھشٹوں کے لئے کسی دوسرے ملک جانے کی بات نہیں کہی ،یہ قابل غور ہے اور ووٹ بینک کی سیاست صاف طورپر نظر آتی ہے ۔

جس طرح متبادل ہوتے ہوئے انہیں شہریت کا حق دینا صحیح ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی شہریت دی جاسکتی ہے ۔مگر ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ووٹ بینک کی سیاست بی جے پی کو ایسا کرنے نہیں دے گی ۔وہ ’ہندتوئو‘ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے مگر اس کی راہ میں ایسی بہت سی آئینی رکاوٹیں ہیں جنہیں دورکرپانا ابھی آسان نہیں ہے ۔اس لئے وہ اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے اور اس میں اضافہ کرنے کے لئے ’شہریت ترمیمی بل ‘ کارڈ کھیل رہی ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ روز بہ روز گرتی ہوئی معیشت کے دور میں ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے ایسے مسائل پر توجہ دی جارہی ہے جن کی فی الوقت کوئی ضرورت نہیں ہے ۔مگر جس سرکار کے پاس کوئی بنیادی ایجنڈہ اور مضبوط لائحۂ عمل نہ ہو وہ ایسے غیر ضروری کاموں میں عوام کے دل و دماغ کو الجھاکر اپنا الّو سیدھا کرنا جانتی ہے ۔